Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۲۱(کتاب الحظر والاباحۃ )
2 - 144
مسئلہ ۲: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ زید کہتاہے حضور سرو کائنات صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی نیاز اگرچہ حرام مال پر دیتاہے مگر پھر بھی حضور قبول فرمالیتے ہیں، جیسے کسی امیر کا لڑکا پیداہو تو بھاٹ بھکاری وغیرہ جو گھاس کا پودا یا اور کچھ ڈھوئی کے لے جاتے ہیں وہ اسے خوشی سے قبول کرلیتا ہے اسی طرح سرور عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی قبول فرمالیتے ہیں۔ اور کہتاہے میں نے بعض کتابوں میں بھی ایسا لکھا دیکھا ہے۔ آیا یہ قول زید کا صحیح ہے یانہیں؟ بینوا توجروا (بیان کرو اجر پاؤ۔ت)
الجواب :  یہ قول اس کا غلط صریح وباطل قبیح اور حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر افتراء فضیح ہے
قال صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من کذب علی متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار ۱؎۔
 (نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:) جو مجھ پر دانستہ جھوٹ باندھے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ (ت)
(۱؎ صحیح البخاری     کتاب العلم باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم     قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۲۱)
زنہار مال حرام قابل قبول نہیں، نہ اسے راہ خدا میں صرف کرنا روا۔ نہ اس پر ثواب ہے بلکہ نرا وبال ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتاہے :
یٰایھا الذین اٰمنوا انفقوا من طیبت ماکسبتم ۲؎۔
اے ایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چزیں ہماری راہ میں خرچ کرو۔
(۲؎ القرآن الکریم   ۲ /۲۶۷)
پھر فرماتاہے :
ولا تییّموا الخبیث منہ تنفقون ۳؎۔
اور خبیث چیزوں کا قصد نہ کیا کرو کہ اس میں سے ہماری راہ میں اٹھاؤ۔
 (۳؎ القرآن الکریم      ۲ /۲۶۷)
اور فرماتاہے :
انما یتقبل اﷲ من المتقین ۴؎۔
خدا قبول نہیں کرتا مگر پرہیز گاروں سے۔
 (۴؎ القرآن الکریم    ۵ /۲۷)
بخاری ، مسلم، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ خزیمہ اپنی صحاح میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من تصدق بعدل تمرۃ من کسب طیب و لایقبل اﷲ الا الطیب فان اﷲ یقبلہا بیمینہ ۱؎  الحدیث۔
جو ایک کھجور کے برابر پاک کمائی سے تصدق کرے اور اللہ تعالٰی نہیں قبول فرماتا مگر پاک کو تو حق جلا وعلا سے اپنے یمین قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ الحدیث
 (۱؎ صحیح البخاری  کتاب الزکوٰۃ باب الصدقۃ من کسب طیب  قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۸۹)
وفی روایۃ ابن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان اﷲ طیب لا یقبل الاالطیب ۲؎۔ واخرج الامام احمد وغیرہ عن عبداﷲ بن مسعود رحمہ اﷲ تعالٰی قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایکسب عبد مالامن حرام فیتصدق بہ فیقبل منہ ولاینفق منہ فیبارک لہ فیہ ولایترک خلف ظہرہ والا کان زادہ الی النار ان اﷲ لایمحواالسیّئ بالسیّئ ولکن یمحوا السیّئ بالحسن ان الخبیث لا یمحو الخبیث ۳؎ اختصرتہ من حدیث وقد حسنہ بعض العلماء۔
یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک اللہ پاک ہے پاک ہی کو قبول فرماتاہے ۔ (امام احمد وغیرہ نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے تخریج کی کہ انھوں نے فرمایا) یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں یہ نہ ہوگا کہ بندہ حرام کما کر اس سے تصدق کرے اور وہ قبول کرلیا جائے گااور نہ یہ کہ سے اپنے صرف میں لائے تو اس کے لئے اس میں برکت دیں اور نہ اسے اپنے پیچھے چھوڑ جائے گا مگر یہ کہ وہ اس کا توشہ ہوگا جہنم کی طرف، بیشک اللہ تعالٰی برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں بھلائی سے برائی کو مٹاتا ہے بیشک خبیث خبیث کو نہ مٹائے گا، (یہ حدیث سے مختصرا بیان کیا ہے اور بعض علماء نے اسے حسن کہا ۔ ت)
 (۲؎ اسنن الکبرٰی کتاب صلٰوۃ الاستسقاء   ۳ /۳۴۶ و صحیح مسلم کتاب الزکوٰۃ  قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱/ ۳۲۶)

(۳؎ مسند امام احمد بن حنبل حدیث عبداللہ بن مسعود  دارالفکر بیروت    ۱ /۳۸۷)
واخرج الحاکم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لایغبطن جامع المال من غیر حلہ اوقال من غیر حقہ فانہ ان تصدق لم یقبل منہ ومابقی کان زادہ الی النار ۱؎ قال الحاکم صحیح الاسناد ولم یصب ففیہ حنش متروک لکن لہ شاہد عند البیہقی عن ابن مسعود رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔
 (حاکم نے عبداللہ ابن عباس (اللہ تعالٰی ان دونوں سے راضی ہو) کے حوالے سے تخریج کی کہ انھوں نے فرمایا) یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت ہے جو غیر حلال سے جمع کرے اس پر کوئی رشک نہ لی جائے اگر وہ اس سے خیرات کرے گا تو قبول نہ ہوگی اور جو بچ رہے گا وہ اس کا توشہ ہوگا جہنم کی طرف ۔ (حاکم نے کہا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن اس نے ٹھیک نہیں کہا کیونکہ اس میں حنش نامی راوی متروک ہے لیکن امام بیہقی کے نزدیک اس کے لئے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے شاہد موجود ہے۔ ت)
 (۱؎ المستدرک للحاکم     کتاب البیوع     دارالفکر بیروت    ۲ /۵)
واخرج ابن خزیمۃ وابن حبان فی صحیحہما والحاکم فی المستدرک من طریق دراج عن ابی حجیرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من جمع مالاحراماثم تصدق بہ لم یکن لہ فیہ اجر و کان اصرہ علیہ ۲؎۔
 (ابن خزیمہ اور ابن حبان نے اپنی اپنی صحیح میں تخریج کی اور حاکم نے مستدرک میں دراج کے طریقے سے ابوحجیرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی کہ انھوں نے فرمایا۔ ت) یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جو حرام مال جمع کرے پھر اسے خیرات میں دے اس کے لئے ثواب کچھ نہ ہوگا اور اس کا وبال اس پر ہوگا۔
 (۲؎ المستدرک للحاکم     کتاب الزکوٰۃ     دارالفکر بیروت    ۱ /۳۹۰)
اخرجہ الطبرانی من ابی الطفیل رضی اﷲ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ سلم من کسب مالا من حرام فاعتق منہ ووصل منہ رحمہ کان ذٰلک اصرہ علیہ ۳؎۔
 (امام طبرانی نے ابوالطفیل رضی اللہ تعالٰی عنہ کے حوالے سے تخریج فرمائی کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام سے روایت ہے۔ ت) یعنی نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو حرام مال کھائے پس اس میں سے غلام آزاد کرے اور صلہ رحم کرے تویہ بھی اس پر وبال ٹھہرے۔
 (۳؎ کنز العمال بحوالہ طب     عن ابی الطفیل حدیث ۹۲۷۰  موسسۃ الرسالۃ بیروت    ۴ /۱۵)
واخرج ابوداؤد فی المراسیل عن القاسم عن مخیمرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من اکتسب مالا من ماثم فوصلی بہ رحما اوتصدق بہ اوانفقہ فی سبیل اﷲ جمع ذٰلک جمیعا فقذف بہ فی جہنم ۱؎۔
 (ابوداؤد نے مراسیل میں بواسطہ قاسم عن مخیمرۃ سے تخریج کی کہ انھوں نے فرمایا۔ت) یعنی نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جو گناہ کی وجہ سے مال کما کر اس سے صلہ رحم یا تصدق یا راہ خدا میں خرچ کرے یہ سب جمع کرکے اسے جہنم میں پھینک دیا جائے ۔ والعیاذ باللہ تعالٰی۔
 (۱؎ کتاب المراسیل    باب الزکوٰۃ الفطر  حدیث ۱۱۷    المکتبۃ القاسمیہ فیصل آباد    ص۷۱)
سبحٰن اللہ !
مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے تویہ قاہر تصریحیں، اور بیباک لوگ حضور پر تہمت رکھیں کہ ناپاک مال بھی سرکار میں قبول ہوجاتاہے
ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العلی العظیم۔
اے عزیز! جو چیز خدا کی بارگاہ سے مردود اور اس کی ناراضی سے آلودہ ہے کیونکر ممکن کہ مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے دربار میں رضاو قبول سے مشرف ہو بلکہ درحقیقت زید کی یہ جرأت سرکار  رسالت علیہ افضل الصلٰوۃ والتحیۃ میں گستاخی واہانت کہ معاذاللہ انھیں ناپاک چیزوں کا پسند وقبول کرنے والا بتاتا ہے۔ ہیہات ہیہات واللہ وہ تمام عالم سے زیادہ ستھرے ہیں او ر ستھروں کے لائق نہیں مگر ستھری چیز، گندی چیزیں گندوں کے سزا وار ہیں،
قال اللہ تعالٰی عزوجل: الخبیثٰت للخبیثین، والخبیثون للخبیثٰت والطیبٰت للطیبین والطیبون للطیبٰت اولئک مبرؤن ممایقولون ۲؎۔
گندیاں گندوں کے لئے اور گندے گندیوں کو اور ستھریاں ستھروں کو اور ستھرے ستھریوں کو  وہ بری ہیں ان باتوں سے جو لوگ کہتے ہیں۔
 (۲؎ القرآن الکریم    ۲۴ /۲۶)
انھیں میں یہ بات بھی ہے کہ وہاں ناپاک مال مقبول ہو۔ وہ طیب طاہر اس خبیث قول سے بری ہیں صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ، اور گھاس کے پٹھی وغیرہ کی مثال محض حماقت کہ مباح وحرام میں کیا مناسبت، لہذا امرائے دنیا بہتیرے خون آلودہ ہزاراں خباثات ہوتے ہیں انھیں تاجدار
یطہر کم تطہیرا
سے کیا نسبت۔ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ٹھیک مثال یوں ہے کہ جشن سلطانی میں کوئی احمق بیباک نذر شاہی کو پیشاب کا قارورہ لے جائے پھر دیکھے کہ مقبول ہوتاہے یا اس مردک کے منہ پر مارا جاتاہے۔ اور وہ جو علماء فرماتے ہیں کہ جس کے پاس مال حرام ہو اور مالک معلوم نہ رہیں یا بے وارث مرجائیں تو ان کی طرف سے تصدق کردے اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ صدقہ مقبولہ ہے یا ارادہ خود میں صرف کرنا ٹھہرے گا یا اس پر انفاق فی سبیل اللہ کا ثواب پائے گا بلکہ وجہ یہ ہے کہ جب اس میں تصرف حرام ہو اور مالک تک پہنچانہیں سکتا نا چار اس کی نیت سے فقیر کو دے دے کہ اللہ جلالہ، کے پاس امانت رہے اور وہ روز قیامت مالک کو پہنچادے۔
فی اخر متفرقات الغصب من الہندیۃ عن الغایۃ رجل لہ خصم فمات ولاوارث لہ یتصدق عن صاحب الحق المیت بمقدار ذٰلک لیکون ودیعۃ عنداﷲ تعالٰی فیوصل الی خصمائہ یوم القیمۃ ۱؎۔
فتاوٰی ہندیہ میں متفرق مسائل غصب کے آخر میں الغایہ سے منقول ہے ایک شخص کا فریق مخالف مرگیا کہ جس کا کوئی وارث نہیں، یہ شخص صاحب حق میت کی طرف سے (جتنا مال میت کا اس کے پاس موجود ہے) اتنی مقدار خیرات کردے تاکہ یہ خیرات کردہ مال اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں بطور امانت رہے تاکہ قیامت کے دن اللہ تعالٰی اس کے مخالف تمام مدعیوں کو وہ مال پہنچادے۔ (ت)
 (۱؎ فتاوٰی ہندیہ   کتا ب الغصب باب المتفرقات نورانی کتب خانہ پشاور ۵/۱۵۷)
Flag Counter